مُحِبّ رسولﷺ یا عاشق رسولﷺ؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر مؤمن ومسلمان کو سب سے زیادہ اللہ اور اس کے رسولﷺ سے محبت ہونی چاہیے جیسا کہ قرآن کی آیات اور احادیث اس کی وضاحت کرتی ہیں۔
مثال کے طور پر محبت الہٰی کے بارے میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں:
‹وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلہِ› [البقرۃ: 165]
ایمان والے اللہ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں۔
اور محبت رسولﷺ کے بارے میں پیارے پیغمبر جناب محمد رسول اللہﷺ فرماتے ہیں
«لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ» (صحیح البخاري: 15)
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اس کے والد، اولاد اور تمام لوگوں سےزیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ ایک روایت میں نبی کریمﷺ نے یہ بات قسم اٹھا کر بھی فرمائی ہے۔
دراصل لفظ عشق غلط العام ھو چکا ھے جسے برصغیر پاک و ھند کے تمام مکاتب فکر کے مسلمان رسول اللہ ﷺ کی محبت کے بجائے استعمال کرتے ہیں۔
اردو ادب میںﻋﺸﻖ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﻟﮕﻦ ﮐﮯ ﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻋﺸﻖ ﺩﻭ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ ﮬﻮﺗﺎﮬﮯ۔
ﻋﺸﻖ ﻣﺠﺎﺯﯼ ﺍﻭﺭ ﻋﺸﻖ ﺣﻘﯿﻘﯽ۔
ﻋﺸﻖ ﻣﺠﺎﺯﯼ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﮐﺴﯽ ﻓﺮﺩ ﻭﺍﺣﺪ ﮐﮯ ﺳﺎتھ انتہائیﻟﮕﺎﺅ ﮬﮯ ۔
ﻋﺸﻖ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺮ ﻋﮑﺲ ﮬﮯ جواللہ تعالی کی ذات سے ھوتا ھے۔ ﻋﺸﺎﻕ ﺟﺐ ﺍﺱ ﺩﺭﺟﮯﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﻮ ﺫﺍﺕ ﺧﺪﺍﻭﻧﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﻓﻨﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮬﯿﮟ۔
ﺁﮦ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ﺍﮎ ﻋﻤﺮ ﺍﺛﺮ ﮬﻮﻧﮯ ﺗﮏ۔
اردو ادب میںﻋﺸﻖ ﮐﮯ ﻣﻌﻨﯽ ﻟﮕﻦ ﮐﮯ ﮬﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻋﺸﻖ ﺩﻭ ﻗﺴﻢ ﮐﺎ ﮬﻮﺗﺎﮬﮯ۔
ﻋﺸﻖ ﻣﺠﺎﺯﯼ ﺍﻭﺭ ﻋﺸﻖ ﺣﻘﯿﻘﯽ۔
ﻋﺸﻖ ﻣﺠﺎﺯﯼ ﺳﮯ ﻣﺮﺍﺩ ﮐﺴﯽ ﻓﺮﺩ ﻭﺍﺣﺪ ﮐﮯ ﺳﺎتھ انتہائیﻟﮕﺎﺅ ﮬﮯ ۔
ﻋﺸﻖ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺮ ﻋﮑﺲ ﮬﮯ جواللہ تعالی کی ذات سے ھوتا ھے۔ ﻋﺸﺎﻕ ﺟﺐ ﺍﺱ ﺩﺭﺟﮯﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﻮ ﺫﺍﺕ ﺧﺪﺍﻭﻧﺪﯼ ﻣﯿﮟ ﻓﻨﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﮬﯿﮟ۔
ﺁﮦ ﮐﻮ ﭼﺎﮨﯿﺌﮯ ﺍﮎ ﻋﻤﺮ ﺍﺛﺮ ﮬﻮﻧﮯ ﺗﮏ۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس شدید اور سب سے زیادہ محبت کو ظاہر کرنے کےلیے لفظ عشق کا استعمال صحیح ہے؟ تو اس کا صاف، سیدھا ، واضح اور دو ٹوک جواب یہی ہے کہ نہیں۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔
ا- لفظ عشق کا معنی اور مفہوم اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ رسول اللہﷺ سے محبت کے اظہار کےلیے استعمال کیا جائے کیونکہ عشق میں جو محبت ہوتی ہے، وہ تقاضا کرتی ھے کہ کسی دوسرے سے نہ ھو، ایسی صورت میں شرک کا احتمال ھے۔
ب- اگر اس معنی سے صرف نظر کرلیا جائے اور بڑی بڑی پگڑیوں والے اپنے آپ کو عاشق کہلوابھی لیں تو کیا خواتین کےلیے اس لفظ کو استعمال کرنے کی اجازت ہوگی کہ وہ بھی عاشقان رسول کہلوا لیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟ کیا خواتین کےلیے الگ اسلام ہے اور مردوں کے لیے الگ؟
ج- اہل بیت سے محبت ، عقیدت اور ان کی عزت کا خیال رکھنے کا ہمیں رسول اللہﷺ نے حکم دیا ہے۔ (صحیح مسلم: 2408) اہل بیت میں ازواج مطہرات اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہن بھی شامل ہیں، کیا ان کےلیے بھی یہی لفظ استعمال کیا جائے گا؟ جو لوگ ازواج مطہرات کو اہل بیت سے خارج سمجھتے ہیں اور پنجتن پاک کا نعرہ لگاتےہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمیں پنجتن پاک سے محبت اور عشق ہے، کیا وہ اس پنجتن کے ایک ایک فرد کا نام لے کر عاشق ہونے کا اظہار کرسکتے ہیں؟ مثلاً: عاشق رسول، عاشق علی، عاشق حسن، عاشق حسین تو ہر کوئی کہلوانے کو تیار ہوجاتا ہے لیکن عاشق فاطمہ لوگ نہیں کہلواتے۔ کیوں؟ وجہ ظاہر ہے کہ سب سمجھتے ہیں کہ لفظ عشق کا استعمال مقدس ہستیوں کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں۔
د- ہر شخص یہ بات کہتا ہے کہ مجھے اپنے اہل خانہ سے محبت ہے۔ مجھے اپنے والدین سے محبت ہے۔ مجھے اپنی بہنوں سے محبت ہے۔ کیا کوئی شخص اس بات کو زبان پر لا سکتا ہے کہ میں اپنی والدہ یا بہن یا بیٹی کا عاشق ہوں؟ اگر نہیں تو کیا اللہ اور نبیﷺ کی ذات مبارک ہی اتنی گئی گزری ہے کہ بےتکلف لوگ اپنے آپ کو عشق الہٰی میں غرق اور عاشق رسول کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہیں؟
عشق کا جواز اقبال سے:
بعض لوگ جب کوئی اور چارہ نہیں دیکھتے تو فوراً کہتے ہیں کہ دیکھو جی! علامہ اقبال نے بھی تو اپنی شاعری میں لفظ عشق کو استعمال کیا ہے اور بےتحاشا کیا ہے۔ کیا وہ بھی غلط تھے؟
اشکال کا جواب۔
اس کا جواب یہ ہے کہ علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ ہوں یا کوئی اور صاحب علم ودانش، ہمارے لیے اصل دلیل قرآن وحدیث ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ علامہ صاحب نے اسے اس کے مروجہ معانی ومفاہیم سے نکال کر ایک نئے معنی یعنی جوش، جنوں، انجام کی طرف دھیان دیے بغیر کام کرجانا وغیرہ میں استعمال کیا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتے ہیں:
؎ بےخطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
مذکورہ بالا شعر میں وہ لفظ عشق کو عقل کے مقابلے میں لے کر آئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ عقل انسان کو آگ میں چھلانگ لگانے سے روکتی ہے ، لیکن یہ ابراہیم علیہ السلام کا جذبہ ایمانی ہی تھا جس نے انہیں عقل کی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے رب کی خاطر آگ میں کود جانے پر آمادہ کیا۔
معلوم ہوا کہ علامہ صاحب کے طرز عمل سے استدلال غلط ہے اور صحیح بات وہی ہے کہ اس لفظ کا استعمال عموماً اور اللہ اور رسولﷺ کی طرف نسبت کرکے استعمال کرنا خصوصاً غلط اور ناجائز ہے۔
اس موضوع پر مندرجہ ذیل کتاب کا مطالعہ کیا جاسکتا ھے، جس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ھے۔
اس موضوع پر مندرجہ ذیل کتاب کا مطالعہ کیا جاسکتا ھے، جس کا خلاصہ مندرجہ ذیل ھے۔
عشق کی بیماری میں شیطان دو طرح کے لوگوں کو مبتلاء کرتا ہے، ایک بے دین طبقہ اور دوسرا دین دار طبقہ۔بے دین طبقے میں لیلی مجنوں، شیریں فرہاد وغیرہ کے نام سننے کو ملتے ہیں۔اور دین دار طبقے میں اس بیماری کا شکار صوفیاء ہوتے ہیں۔کسی سے اپنی عقیدت کو ظاہر کرنے کےلیے ہمارے ہاں زیادہ تر لفظ عشق استعمال کیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ لفظ ہماری محبت اور عقیدت کو بالکل صحیح انداز سے واضح کردیتا ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عشق اور محبت وعقیدت میں بہت زیادہ فرق ہے۔ عشق ایک دیوانگی ہے جو عاشق سے عقل و شعور کو ختم کرکے اسے پاگل پن میں مبتلا کردیتی ہے جس کے بعد اسے کسی قسم کے نفع ونقصان کی تمیز نہیں رہتی، بس اپنی خواہش کو پورا کرنے اور معشوق کو حاصل کرنے کا خیال اس پر ہر وقت حاوی رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر قسم کے کام سے عاجز ہوکر بےکار بن کر معاشرے میں عضو معطل بلکہ ایک بوجھ بن کر رہ جاتا ہے۔قرآن وحدیث میں عقیدت و الفت کو ظاہر کرنے لفظ محبت ہی استعمال ہوا ہے۔ لفظ عشق کا استعمال ہمیں کہیں نظر نہیں آتا۔ عزیز مصر کی بیوی کو یوسف علیہ السلام سے جو تعلق پیدا ہوگیا تھا، وہ تو ہر لحاظ سے عشق ہی تھا، لیکن قرآن مجید میں اس موقع پر بھی عشق کا لفظ لانے کی بجائے ’ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور رسولﷺ اس لفظ کے استعمال سے کس قدر پرہیز کرنے والے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب" محبت یا عشق " معروف عالم دین محترم مولانا عبد اللہ ناصرر حمانی صاحب کی تصنیف ہے ، جس میں انہوں نے مقدس ہستیوں کے لئے لفظ عشق استعمال کرنے سے منع کیا ہے اور ان کے ساتھ لفظ محبت استعمال کرنے کو درست قرار دیا ہے۔ اللہ تعالی سے دعا کہ وہ تمام اہل علم کی اس کاوش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور ان کے میزان حسنات میں اضافہ فرمائے
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن وحدیث پر چلنے اور سیرت کے اصل پیغام ’توحیدوسنت‘ کو
اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین
اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن وحدیث پر چلنے اور سیرت کے اصل پیغام ’توحیدوسنت‘ کو
اپنانے کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین



اپنی رائے سے مستفید فرمائیں
ReplyDelete